مصنف: اسٹیفن رضاؔ
(ایم اے انگریزی ادب، بی ٹی ایچ)
✪✪✪
Download E-Book (PDF)
✪✪✪

سنہلی آیت

’’اگر خداوند میرا مددگار نہ ہوتا تو میری جان کب کی عالمِ خاموشی میں جا بسی ہو تی۔‘‘ (زبور ۹۴: ۱۷)

ابتدائیہ

یوں تو بائبل مقدس میں دورِ حاضر کے جدید ذرائع آمدورفت کے حوالہ سے مخصوص الفاظ میں (جیسے ہوائی جہاز کریش ہونا، کار ایکسیڈنٹ یا دوسری سفری آفتوں) کسی واقعے کا کوئی ذکر نہیں ملتا البتہ اِس میں سفری حادثات، خُدا کے مافوق الفطرت تحفظ، زندگی کے غیر یقینی ہونے نیز زندگی اور موت پر خُدا کے الہٰی اختیار کے بارے میں بہت کچھ کہا اور بتایا گیا ہے۔

سفری حادثات پر باتے کرتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ قدیم بائبلی ادوار میں مندرجہ ذیل ذرائع آمدروفت ہوا کرتے تھے جس پر کئی کئی دِن، ہفتے اور مہینے لگ جایا کرتے تھے۔ اِ ن سفروں کے دوران مسافروں کے پڑاؤ ، آرام و طعام اور مہمان نوازی کے لئے خصوصی انتظامات کئے جاتے تھے جیسے سرائے وغیرہ جن کی جدید شکل ہوٹل اور مہمان خانے ہیں۔

✪✪✪
باب اول

بائبلی زمانوں کے ذرائع آمدورفت

۔۔۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ بائبل مقدس کے زمانوں میں سفر کے کون کون سے طریقے استعمال کئے جاتے تھے:
۱۔ پیدل سفر (سب سے عام طریقہ)۔
اندرونِ شہر یا ایک شہر سے دوسرے شہر تک پیدل چلنے کا رواج ہماری پچھلی نسل تک عام رہا ہے۔
مثال: یسوعؔ اور اُس کے حواریوں سمیت بائبل مقدس کے بیشتر کردار پیدل سفر کیا کرتے تھے۔
۲۔ گدھوں اور خچروں پر سفر۔
گدھے اور خچر سواری کے علاوہ بھاری بوجھ اُٹھانے اور سازو سامان کی ترسیل و منتقلی کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے۔
مثال: مقدسہ مریم ؔ اور مقدس یوسف ؔ کا گدھے پر بیٹھ کر بیت لحم جانا۔ خداوند یسوعؔ کا گدھے کی سواری کرنا۔
۳۔ اونٹوں پر سفر۔
طویل صحرائی راستوں پر عموماً اونٹوں پر سفر کیا جاتا تھا۔ مثال: ابرہامؔ کے نوکر الیعزرؔ نے اضحاقؔ کے لئے بیوی تلاش کرتے وقت اونٹوں پر سفر کیا تھا۔
۴۔ گھوڑوں پر سفر۔
گھوڑے عموماً امراء کی اور مہنگی بالخصوص جنگی یا شاہی سواری تصور کئے جاتے تھے ۔ گھوڑوں اور تانگوں پر سفر بھی ہماری پچھلی نسل تک عام رہا ہے بلکہ آج بھی شادی بیاہوں میں شاہی بگھی کی سواری باقاعدہ ایک رسم اور روایت ہے۔
مثال: سلیمانؔ بادشاہ کے پاس بہت سے گھوڑے تھے۔ یسوعؔ اپنی آمدِ ثانی پر جب بادشاہوں کے بادشاہ کے رُوپ میں ظاہر ہوگا تو سفید گھوڑے پر سوار ہو کر آئے گا۔
۵۔ رتھوں پر سفر۔
گھوڑے یا گھوڑوں کے پیچھے دو پہیوں کی ہلکی گاڑی جوڑ کر رتھ بنائے جاتے تھے۔ رتھ بھی فوجی اور شاہی سواری کے زمرے میں آتے تھے۔ قدیم مصری زمانے میں رتھوں کی سواری عام تھی۔
مثال: فرعون نے شاہی رتھ میں بیٹھ کر اسرائیلیوں کا پیچھا کیا تھا۔ فرعون نے یوسفؔ کو شاہی رتھ میں سوار کرایا اور پورے مصر میں اُس کی جانشینی کا اعلان کرایا تھا۔ ایلیاہ ؔ نبی کو آسمان سے آتشیں رتھ لینے آیا تھا۔
۶۔ کشتیاں اور بحری جہاز۔
سلیمان بادشاہ کے زمانے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بحری جہازوں پر سفر عام ہو چکا تھا جنہیں عموماً ماہی گیری، تجارت اور سمندروں کے ذریعے مال برداری کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
مثال: نوح کی کشتی۔ یوناہ نبی نے بحری جہاز پر سفر کیا۔ یسوعؔ مسیح نے اپنی زندگی میں شاگردوں کے ہمراہ کشتیوں پر متعدد سفر کئے۔ پولسؔ رسول نے اپنے مشنری دوروں کے دوران بحری جہاز پر کئی سفر کئے۔
۷۔ چھکڑے اور بیل گاڑیاں ۔
بیلوں اور گدھوں کو عموماً چھکڑوں کے ذریعے مال برداری کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ اُس زمانے میں غرباء کی گاڑیاں ہوا کرتی تھی۔
مثال: داؤدؔ بادشاہ کے زمانے میں عہد کا صندوق گایوں کی ایک گاڑی میں لایا گیا۔ یعقوبؔ اور اُس کے اہلِ خانہ نے فرعون کی بھیجی ہوئی گاڑیوں میں سفر کیا۔
۸۔ قافلوں میں سفر۔
عام طور پر حفاظت یا گروہی سفر کے پیشِ نظر سوداگر قافلوں کی شکل میں بھی سفر کیا کرتے تھے اور یہ سفر عموماً اونٹوں پر ہی کئے جاتے تھے۔
مثال: یوسفؔ کے بھائیوں نے اُسے اسمعیلیوں کے ایک قافلے کے ہاتھ فروخت کیا تھا جو جلعاد سے مصر کی جانب رواں دواں تھا۔ بنی اسرائیل کا ملکِ مصر سے ملکِ کنعان کی طرف چالیس سالہ بیابانی سفر۔

سفری حادثات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اِن تمام ذرائع آمدورفت کے دوران بھی چوری چکاری، ڈاکہ زنی اور ناگہاں موت کے خطرات سروں پر منڈلاتے رہا کرتے تھے۔

✪✪✪
باب دوم

بائبل مقدس میں سے سفری حادثات کی مثالیں

۱۔ بنی اسرائیل کا چالیس سالہ بیابانی سفر۔

یہ بائبل مقدس کا سب سے زیادہ طویل اور قافلے کی صورت میں ایک پوری قوم کے اجتماعی سفر کی واحد اور یکتا مثال ہے جو ایک بہت بڑی بھیڑ اور چالیس برسوں پر محیط تھا۔ آج ہم چند لوگوں پر مشتمل سفری گروپ کے لوگوں کو اکٹھا کرنے ، ساتھ لے کر چلنے اور سنبھالنے کے عمل کو کس قدر دشوار سمجھتے ہیں مگر سلام ہے موسیٰؔ اور اُس کی استقامت کو جس نے ایک ناشکری اور قدم قدم پر بڑبڑانے والی قوم کو برداشت کیا۔ اِس میں ہم جیسے قائدین کے لئے ایک بہت بڑا سبق پنہاں ہے۔ پھر اِس سفر کی سب سے خوبصورت بات خُدا کی وفاداری اور الہٰی محافظت ہے کہ وہ کس طرح اُنہیں اِس طویل سفر میں فرعون جیسے دشمنوں سے مافوق الفطرت طور پر بچاتا رہا، اُنہیں گزارنے کے لئے سمندروں کے منہ کھول دئیے، دِن میں بادل اور رات کو آگ کا ستون بن کر اُنہیں راہ دکھائی، اُن کے لئے کھانے کے لئے آسمانی من سے لے کر بٹیروں تک سب کچھ مہیا کیا، جب پیاس کی شدت سے بلبلانے لگے تو چٹانوں سے چشمے جاری کر دئیے، راستے میں آنے والی قوموں پر اُن کی دھاک بٹھائی۔ اِس طویل سفر میں خدا کی اپنی اُمت، اپنے بندہ موسیٰ ؔ اور اپنے کلام کے ساتھ وفاداری کا ایک بہترین حوالہ استثنا ۲۹: ۵ میں ملتا ہے جہاں لکھا ہے کہ ، ’’ اور میں چالیس برس بیابان میں تمکو لیے پھرا اور نہ تمہارے تن کے کپڑے پُرانے ہوئے اور نہ تیرے پاوں کی جوتی پُرانی ہوئی ۔‘‘

۲۔ سمسون ؔ اور شیر
حوالہ: قضاۃ ۱۴ باب

عہدِ عتیق میں سفر کے دوران ناگہاں مصیبت کی ایک عمدہ مثال ہمیں سمسونؔ کی زندگی میں نظر آتی ہے کہ جب وہ تمنت کی طرف جا رہاتھا تو ایک جوان شیر آ کر اُس کے سامنے گرجنے لگا۔ تب ہی خداوند کا روح زور سے سمسونؔ پر نازل ہوا اور اُس نے خالی ہاتھ اُسے بکری کے بچے کی طرح چیر ڈالا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفر میں مصیبت کے وقت خُدا کا روح ہماری حفاظت اور مدد کرتا ہے۔ مگر یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ جب سمسونؔ اُسی راستے سے لوٹتا ہے تو اُسی شیر کے پنجر میں اُسے تازہ شہد مل جاتا ہے جسے وہ خود بھی کھاتا اور اپنے ماں باپ کے لئے بھی لے جاتا ہے۔ یہ بات ہمیں مصیبت پر غالب آنے کے اجر اور انعام کا سبق دیتی ہے۔

۳۔ بلعامؔ کی گدھی کا حادثہ۔
حوالہ۔ ( گنتی ۲۲: ۲۲۔ ۳۵)
’’سو بلعام اٹھا اور اپنی گدھی پر زین کس کر موآب کے امرا کے ہمراہ چلا۔ اور اسکے جانے کے سبب سے خدا کا غضب اس پر بھڑکا اور خداوند کا فرشتہ اس سے مزاہمت کرنے کے لیے راستہ روک کر کھڑا ہو گیا وہ تو اپنی گدھی پر سوار تھا اور اس کے ساتھ دو ملازم تھےاور اس گدھی نے خداوند کے فرشتہ کو دیکھا وہ اپنے ہاتھ میں ننگی تلوار لیے کھڑا ہے تب گدھی راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہو گئی اور کھیت میں چلی گئی سو بلعام نے گدھی کو مارا تاکہ اسے راستہ پر لائے۔تب خداوند کا فرشتہ ایک نیچی راہ میں جا کھڑا ہو جو کہ تاکستانوں میں بیچ سے ہو کر نکلتی تھی اور اس کی دونوں طرف دیواریں تھیں گدھی خداوند کے فرشتہ کو دیکھ کر دیوار سے جا لگی اور بلعام کے پاؤں کو دیوار کے ساتھ پچا دیا سو اس نے پھر اسے مارا۔ تب خداوند کا فرشتہ آگے بڑھ کر ایک ایسے تنگ مقام میں کھڑا ہو گیا جہاں دہنی یا بائیں طرف مڑنے کی جگہ نہ تھی۔ پھر جو گدھی نے خداوند کے فرشتہ کو دیکھا تو بلعام کو لیے ہوئے بیٹھ گئی پھر تو بلعام جھلا اٹھا اور اس نے اپنی گدھی کولاٹھی سے مارا۔ تب خداوند نے گدھی کی زبان کھول دی اور اس نے بلعام سے کہا کہ میں نے تیرے ساتھ کیا کیا ہے کہ تو مجھے تین بار مارا؟بلعام بے گدھی سے کہا اس لیے کہ تو نے مجھے چڑایا کاش ! میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں تجھے ابھی مار ڈالتا۔ گدھی نے بلعام سے کہا کیا میں تیری وہی گدھی نہیں ہو ں جس پر تو اپنی ساری عمر آ ج تک سوار ہوتا آیا ہے؟ کیا میں تیرے ساتھ پہلے کبھی ایسا کرتی تھی ؟ اس نے کہا نہیں۔ تب خداوند نے بلعام کی آنکھیں کھولیں اور اس نے خداوند کے فرشتہ کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ میں ننگی تلوار لیے ہوئے کھڑا ہے سو اس نے اپنا سر جھکا لیا اور اوندھا ہو گیا۔ خداوند کے فرشتہ نے اسے کہا کہ تو نے اپنی گدھی کو تین بار کیوں مارا؟ دیکھ میں تجھ سے مزاحمت کرنے کو آیا ہو ں اس لیے کہ تیری چال میری نظر میں ٹیڑھی ہےاور گدھی نے مجھکو دیکھا اور تین بار میرے سامنےسے مڑ گئی اگر وہ میرے سامنے سے نہ ہٹتی تو میں ضرور تجھے مار ہی ڈالتا اور اسکو جیتی چھوڑ دیتا۔ بلعام نے خداوند کے فرشتہ سے کہا کہ مجھ سے خطا ہوئی ہے کیونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ تو میرا راستہ روک ےکھڑا ہے سو اگرا ب تجھے برا لگتا ہے تو میں لوٹ جاتا ہوں۔ خداوند کے فرشتہ نے بلعام سے کہا تو ان آدمیوں کے ساتھ ہی چلا جا لیکن فقط وہی بات کہنا جو میں تجھ سے کہوں سو بلعام بلق کے امرا کے ساتھ گیا۔‘‘
۴۔ یوناہ نبی اور بحری جہاز کا سفر
حوالہ: یوناہ کی کتاب کا پہلا باب

یوناہؔ نبی کی کہانی سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ وہ کس طرح خُدا کی مرضی کے برخلاف نینوہ جانے کی بجائے ترسیس کی طرف بھاگتا ہے اور کرایہ دے کر جہاز میں سوار ہو کر زیریں حصے میں جا کر چھپ جاتا ہے۔ راستے میں اُس کا جہاز طوفانی لہروں کی زد میں آ کر ڈوبنے لگتا ہے اور ناخداؤں کی ساری کوششوں کے باوجود جب بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو غیر قوم سے تعلق رکھنے والا کپتان قرعہ ڈالتا ہے جس میں فال یوناہ نبی کے نام نکلتا ہے۔ جس پر وہ اُنہیں خود ہی کہتا ہے کہ پورے جہاز ، عملے اور مسافروں کو بچانے کے لئے واحد حل یہی ہے کہ مجھے سمندر میں پھینک دیا جائے۔ لامحالہ وہ یوناہ کو سمندر میں پھینک دیتے ہیں اور طوفان تھم جاتا ہے۔ دوسری طرف خُدا نے یوناہ کے لئے ایک مچھلی تیار کر رکھی ہوتی ہے جو اُسے ایک نئے مگر خُدا کی مرضی کے سفر پر لے کر روانہ ہو جاتی ہے۔ یہ بات عہدِ عتیق میں خُدا کے فضل کی نہایت خوبصورت تصویر ہے جسے دیکھ کر میں کہتا ہوں کہ شریعت میں بھی فضل ہمیں جا بجا نظر آتا ہے جس کی یوناہ ہی کی کتاب میں دوسری تصویر نینوہ کے لوگوں کی اجتماعی نجات ہے۔ یاد رہے ، یوناہؔ نبی کا سفری حادثہ ہمیں خُدا کی مرضی کے خلاف بھاگنے کی وجہ سے مشکل اور مصیبت میں پڑنے کا انبتاہی سبق دیتا ہے۔

۵۔ نیک سامری کی تمثیل کا وہ آدمی جو یریحو کو جا رہا تھا
حوالہ : لوقا ۱۰: ۳۰۔ ۳۵
’’ ایک آدمِی یروشلِیم سے یریحُو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈآکُوؤں میں گھِر گیا۔ اُنہوں نے اُس کے کپڑے اُتار لِئے اور مارا بھی اور ادھمؤا چھوڑ کر چلے گئے۔اِتّفاقاً ایک کاہِن اُس راہ سے جا رہا تھا اور اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔اِسی طرح ایک لاوی اُس جگہ آیا۔ وہ بھی اُسے دیکھ کر کترا کر چلا گیا۔لیکِن ایک سامری سفر کرتے کرتے وہاں آ نِکلا اور اُسے دیکھ کر اُس نے ترس کھایا۔اور اُس کے پاس آ کر اُس کے زخموں کو تیل اور مَے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر سوار کر کے سرای میں لے گیا اور اُس کی خَبر گیری کی۔دُوسرے دِن دو دِینار نِکال کر بھٹیارے کو دِئے اور کہا اِس کی خَبر گیری کرنا اور جو کُچھ اِس سے زیادہ خرچ ہوگا مَیں پھِر آ کر تُجھے ادا کردُوں گا۔اِن تِینوں میں سے اُس شَخص کا جو ڈاکوؤں میں گھِر گیا تھا تیری دانِست میں کَون پڑوسِی ٹھہرا؟اُس نے کہا وہ جِس نے اُس پر رحم کِیا۔ یِسُوع نے اُس سے کہا جا۔ تُو بھی اَیسا ہی کر۔‘‘

نیک سامری کی تمثیل کے تناظر میں، مَیں سمجھتا ہوں کہ آج کے دَور میں ایدھی ، چھیپا اور 1122 جیسے ادارے نیک سامری کی علامت ہیں۔

۶۔ یسوعؔ، شاگرد، کشتی اور طوفان
حوالہ: مرقس ۴: ۳۵۔ ۴۱
’’اسی دن جب شام ہوئی تو اس نے ان سے کہا آؤ پار چلیں۔ اور وہ بھیڑ کو چھوڑ کر تب بڑی آندھی چلی اور لہریں کشتی پر یہاں تک آئیں کہ کشتی پانی سے بھری جاتی تھی اور وہ خود پیچھے کی طرف گدی پر سو رہا تھا۔ پس انہوں نے اسے جگا کر کہا اے استاد کیا تجھے فکر نہیں کہ ہم ہلاک ہو ئے جاتے ہیں ؟ اس نے اٹھ کر ہوا کو ڈانٹا اور پانی سے کہا ساکت ہو! تھم جا! پس ہوا بند ہو گئی اور بڑا امن ہوگیا۔ پھر ان سے کہا تم کیوں ڈرتے ہو؟ اب تک ایمان نہیں رکھتے؟ اور وہ نہایت ڈر گئے اور آپس میں کہنے لگے یہ کون ہے کہ ہوا اور پانی بھی اسکا حکم مانتے ہیں؟‘‘

اِس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر یسوعؔ ساتھ ہو تو وہ ہمیں سفر کی مشکلات سے بچا لیتا ہے۔ ہالیلویاہ!

۷۔ پولس ؔ رسول اور سمندری طوفان
حوالہ: اعمال ۲۷: ۱۸۔۲۴۔
’’مگر جب ہم نے آندھی سے بہُت ہچکولے کھائے تو دوُسرے دِن وہ جہاز کا مال پھینکنے لگے۔اور تیِسرے دِن اُنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے جہاز کے آلات واسباب بھی پھینک دِئے۔اور جب بہُت دِنوں تک نہ سُرج نظر آیا نہ تارے اور شِدّت کی آندھی چل رہی تھی تو آخر ہم کو بچنے کی اُمِید بِالکُل نہ رہی۔اور جب بہُت فاقہ کرچُکے تو پولُس نے اُن کے بِیچ میں کھڑے ہوکر کہا اَے صاحِبو! لازم تھا کہ تُم میری بات مانکر کریتے سے روانہ نہ ہوتے اور یہ تکلِیف اور نُقصان نہ اُٹھاتے۔مگر اَب میں تُم کو نصِیحت کرتا ہُوں کہ خاطِر جمع رکھّو کِیُونکہ تُم میں سے کِسی کی جان کا نُقصان نہ ہوگا مگر جہاز کا۔کِیُونکہ خُدا جِس کا مَیں ہُوں اور جِس کی عِبادت بھی کرتا ہُوں اُس کے فِرشتہ نے اِسی رات کو میرے پاس آ کرکہا اَے پولُس! نہ ڈر۔ ضرُور ہے کہ تُو قَیصر کے سامنے حاضِر ہو اور دیکھ جِتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں اُن سب کی خُدا نے تیری خاطِر جان بخشی کی۔‘‘
اِس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بعض اوقات کسی ایک ایماندار مسافر کی وجہ سے خُدا پورے عملے اور مسافروں کو حادثات سے بچا لیتا ہے۔ اِسی الہٰی محافظت پر مبنی واقعات کو یاد کرتے ہوئے پولسؔ رسول کرنتھس کی کلیسیا کے نام اپنے خط میں اپنی گواہی پیش کرتے ہوئے اپنے حادثوں اور اپنی مصیبتوں پر فخر کرتا ہے:
’’ کیا وُہی مسِیح کے خادِم ہیں؟ (میرا یہ کہنا دِیوانگی ہے) مَیں زِیادہ تر ہُوں۔ محنتوں میں زِیادہ۔ قَید میں زِیادہ۔ کوڑے کھانے میں حدّ سے زِیادہ۔ بار ہا مَوت کے خطروں میں رہا ہُوں۔ مَیں نے یہُودِیوں سے پانچ بار ایک کم چالِیس چالِیس کوڑے کھائے۔ تِین بار بید لگے۔ ایک بار سنگسار کِیا گیا۔ تِین بار جہاز ٹُوٹنے کی بلا میں پڑا۔ ایک رات دِن سَمَندَر میں کاٹا۔ مَیں بار ہا سفر میں۔ دریاؤں کے خطروں میں۔ ڈاکُوؤں کے خطروں میں۔ اپنی قَوم سے خطروں میں۔ غَیرقَوم سے خطروں میں۔ شہر کے خطروں میں۔ بِیابان کے خطروں میں۔ سَمَندَر کے خطروں میں۔ جھُوٹے بھائِیوں کے خطروں میں۔ محنت اور مُشقت میں۔ بار ہا بیداری کی حالت میں۔ بھُوک اور پیاس کی مُصِیبت میں۔ بار ہا فاقہ کشی میں۔ سردی اور ننگاپن کی حالت میں رہا ہُوں۔ اَور باتوں کے عِلاوہ جِن کا میں ذِکر نہِیں کرتا سب کلِیسیاؤں کی فِکر مُجھے ہر روز آ دباتی ہے۔‘‘
۲۔ کرنتھیوں ۱۱: ۲۳۔ ۲۸
✪✪✪
باب سوم

ہمارا خُدا ہمارا محافظ ہے

سفری محافظت کے حوالے سے سب سے خوبصورت وعدہ زبور ۱۲۱ کی مندرجہ ذیل آیات میں پایا جاتا ہے۔

’’میَں اپنی آنکھیں پہاڑ کی طرف اُٹھاؤں گا میری کُمک کہاں سے آئے گی؟میری کُمک خُداوند سے ہے جِس نے آسمان اور زمین کو بنایا۔وہ تیرے پاؤں کو پھسلنے نہ دیگا۔ تیرا مُحافظ اُنگھنے کانہیں۔دیکھ! اِسرؔائیل کو مُحافظ نہ اُنگھیگا نہ سوئیگا۔خُداوند تیرا مُحافظ ہے خُداوند تیرے دہنے ہاتھ پر تیرا سائبان ہے۔نہ آفتاب دِن کو تجھے ضرر پہنچائیگا نہ ماہتاب رات کو۔خُداوند ہر بلا سے تجھے محفوظ رکھے گا۔ اور تیری جان کو محفوظ رکھیگا۔خُداوند تیری آمدورفت میں اب سے ہمیشہ تک تیری حفاظت کریگا۔‘‘

پھر ایک اَور خوبصورت وعدہ ملاحظہ کیجئے:

زبور ۹۱: ۱۱۔ ’’ کیونکہ وہ تیری بابت اپنے فرِشتوں کو حُکم دے گا۔کہ تیری سب راہوں میں تیری حفاظت کریں۔‘‘

یاد رکھیں، ہمارا خُدا مافوق الفطرت طریقوں سے اپنے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے:
وہ ایوب کی طرح ہمارے گرد باڑ بنا دیتا ہے۔
اس کا خون ہماری حفاظت کرتا ہے۔
وہ اپنے پروں کے سایہ میں ہمیں رکھتا ہے۔
وہ اپنے ہاتھ سے ہمیں سنبھالتا ہے۔
دوسرے ایمانداروں کی دعا کے وسیلہ سے ہماری حفاظت کرتا ہے۔
یہاں مجھے کلام کی وہ آیت یاد آتی ہے جس میں لکھاہے کہ ’’

’’کسی کو تو گھوڑوں پر بھروسہ ہے اور کسی کو رتھوں پر مگر ہم تو خداوند اپنے خدا کا ہی نام لیں گے۔‘‘

✪✪✪

سفر کی دعا

بیرونِ ملک سفر کی دُعا

بائبل مقدس کی رُو سے سفر کی دُعا اُن الفاظ پر مشتمل ہے جو بزرگ یعقوبؔ نے اپنے ماموں لابنؔ کے گھر روانہ ہوتے وقت راستے میں خُدا کے حضور مانگی تھی۔ ہمیں بھی گھر سے نکلتے وقت اپنے آپ کو ، اپنے گھرانے ، گھربار ، ذرائع آمدورفت اور منزلِ مقصود کو دعا کے ذریعے خُدا کے سپرد کر نا چاہئے۔ یعقوبؔ کی دُعا باقاعدہ ایک منّت ہے۔

پیدائش ۲۸: ۲۰۔ ۲۲۔ ’’اور یعقوؔب نے مَنت مانی اور کہا کہ اگر خُدا میرے ساتھ رہے اور جو سفر مَیں کر رہا ہُوں اور اِس میں میری حفاظت کرے اور مُجھے کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا دیتا رہے۔اور میں اپنے باپ کے گھر سلامت لَوٹ آؤں تو خُداوند میرا خُدا ہوگا ۔اور یہ پتھر جو مَیں نے ستون سا کھڑا کیا ہے خُدا کا گھر ہوگا اور جو کُچھ تُو مجھے دے اُسکا دسواں حصّہ ضرور ہی تُجھے دِیا کرُونگا۔‘‘
عمومی سفر پر جانے کی دُعا
زبور ۱۲۱۔ ’’میَں اپنی آنکھیں پہاڑ کی طرف اُٹھاؤں گا میری کُمک کہاں سے آئے گی؟میری کُمک خُداوند سے ہے جِس نے آسمان اور زمین کو بنایا۔وہ تیرے (میرے) پاؤں کو پھسلنے نہ دیگا۔ تیرا (میرا) مُحافظ اُنگھنے کانہیں۔دیکھ! اِسرؔائیل کا مُحافظ نہ اُنگھیگا نہ سوئیگا۔ خُداوند تیرا (میرا) مُحافظ ہے خُداوند تیرے (میرے) دہنے ہاتھ پر تیرا (میرا) سائبان ہے۔نہ آفتاب دِن کو تجھے (مجھے) ضرر پہنچائیگا نہ ماہتاب رات کو۔ خُداوند ہر بلا سے تجھے (مجھے) محفوظ رکھے گا۔ اور تیری (میری) جان کو محفوظ رکھیگا۔ خُداوند تیری (میری) آمدورفت میں اب سے ہمیشہ تک تیری (میری) حفاظت کریگا۔‘‘
✪✪✪

سفر کے حوالے سے بائبل مقدس کی دیگر بابرکت آیات

  1. ایوب ۱۰: ۱۲۔ تو نے مجھے جان بخشی اور مجھ پر کرم کیا اور تیری نگہبانی نے میری رُوح سلامت رکھی۔
  2. زبور ۱۱۸: ۱۷۔ میَں مرونگا نہیں بلکہ جِیتا رُہونگا۔ اور خُداوند کے کاموں کا بیان کرونگا۔
  3. متی ۶: ۱۳۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ بُرائی سے بَچا۔
  4. امثال ۲۷: ۱۲۔ ہوشیار بلا کو دیکھکر چھپ جاتا ہے لیکن نادان بڑھے چلے جاتے اور نقصان ُٹھاتے ہیں۔
  5. استثنا ۲۸: ۶۔ اور تُو اندر آتے وقت مبارک ہو گا اور باہر جاتے وقت بھی مبارک ہو گا ۔
  6. استثنا ۳۱: ۸۔ اور خداوند ہی تیرے آگے آگے چلے گا ۔ وہ تیرے ساتھ رہے گا ۔
  7. زبور ۲۳: ۴، ۶۔ بلکہ خواہ مُوت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گُذر ہو میں کسی بلا سے نہیں ڈرونگا کیونکہ تُو میرے ساتھ ہے تیرے عصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے۔۔۔یقیناً بھلائی اور رحمت عُمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہینگی اور میں ہمیشہ خُداوند کے گھر میں سکونت کرونگا۔
  8. زبور ۳۴: ۷۔ خُداوند سے ڈرنے والوں کی چاروں طرف اُس کا فرشتہ خیمہ زن ہوتا ہے۔ اور اُن کو بچاتا ہے۔
  9. زبور ۳۴: ۲۰۔ صادق کی مُصیبتیں بہت ہیں لیکن خُداوند اُس کو اُن سے رہائی بخشتا ہے ۔ وہ اُس کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اُن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی۔
  10. زبور ۹۱: ۱۔ ۲۔ جو حق تعالیٰ کے پردہ میں رہتا ہے۔ وہ قادرِ مُطلق کے سایہ میں سکونت کریگا۔ میَں خُداوند کے بارے میں کہونگا وہی میری پناہ اور میرا گڑھ ہے۔ وہ میرا خُدا ہے جِس پر میرا توکُل ہے۔
  11. زبور ۹۱: ۴۔ وہ تجھے اپنے پروں سے چھُپا لیگا۔ اور تجھے اُس کے بازؤں کے نیچے پناہ ملے گی۔ اُس کی سچّائی ڈھال اور سِپر ہے۔
  12. زبور ۱۱۹: ۱۰۵۔ تیرا کلام میرے قدموں کے لئے چراغ اور میری راہ کے لئے روشنی ہے۔
  13. زبور ۱۲۱: ۷۔ ۸۔ خُداوند ہر بلا سے تجھے محفوظ رکھے گا۔ اور تیری جان کو محفوظ رکھیگا۔ خُداوند تیری آمدورفت میں اب سے ہمیشہ تک تیری حفاظت کریگا۔
  14. امثال ۱۶: ۹۔ آدمی کا دِل اپنی راہ ٹھہراتا ہے پر خداوند اُسکے قدموں کی راہنمائی کرتا ہے۔
  15. امثال ۲: ۸۔ ۹۔ وہ راستبازوں کے لئے مدد تیار رکھتا ہے اور راست روکے لئے سپر ہے۔ تاکہ وہ عدل کی راہوں کی نگہبانی کرے اور اپنے مقدسوں کی راہ کو محفوظ رکھے۔
  16. امثال ۳: ۶۔ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔
  17. امثال ۳: ۲۳۔ تب تو بے کھٹکے اپنے راستہ پر چلیگا اور تیرے پاؤں کو ٹھیس نہ لگیگی۔
  18. امثال ۱۸: ۱۰۔ خداوند کا نام محکم برج ہے۔ صادق اُس میں بھاگ جاتا ہے اور امن میں رہتا ہے۔
  19. امثال ۲۰: ۲۴۔ آدمی کی رفتار خداوند کی طرف سے ہے ۔ پس اِنسان اپنی راہ کو کیونکر جٓان سکتا ہے؟
  20. زکریاہ ۲: ۸۔ جو کوئی تم کو چھوتا ہے میری آنکھ کی پتلی کو چھوتا ہے۔
  21. لوقا ۴: ۱۰۔ ۱۱۔ کِیُونکہ لِکھا ہے کہ وہ تیری بابت اپنے فرِشتوں کو حُکم دے گا کہ تیری حِفاظت کریں۔ اور یہ بھی کہ وہ تُجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے۔ مبادا تیرے پاؤں کو پتھّر سے ٹھیس لگے۔
  22. لوقا ۲۱: ۱۸۔ لیکِن تُمہارے سر کا ایک بال بھی بِیکا نہ ہوگا۔
  23. یعقوب ۴: ۱۳۔ ۱۵۔ تُم جو یہ کہتے ہو کہ ہم آج یا کل فلاں شہر میں جا کر وہاں ایک برس ٹھہریں گے اور سَوداگری کر کے نفع اُٹھائیں گے۔ اور یہ جانتے نہِیں کہ کل کیا ہوگا۔ ذرا سُنو تو! تُمہاری زِندگی چِیز ہی کیا ہے؟ بُخارات کا سا حال ہے۔ ابھی نظر آئے۔ ابھی غائِب ہو گئے۔ یُوں کہنے کی جگہ تُمہیں یہ کہنا چاہئے کہ اگر خُداوند چاہے تو ہم زِندہ بھی رہیں گے اور یہ یا وہ کام بھی کریں گے۔
  24. رومیوں ۸: ۲۸۔ ’’ اور ہم کو معلُوم ہے کہ سب چِیزیں مِل کر خُدا سے محبّت رکھنے والوں کے لِئے بھلائی پَیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لِئے جو خُدا کے اِرادہ کے مُوافِق بُلائے گئے۔ ‘‘
  25. ۲۔ کرنتھیوں ۱۲: ۹۔ "میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قدرت کمزوری میں پوری ہوتی ہے ۔"
✪✪✪

اختتامیہ

عزیز قاری،

تحریر پڑھنے کا بہت بہت شکریہ۔ میری دِلی دُعا ہے کہ یہ کتابچہ آپ کے لئے باعثِ برکت ثابت ہو۔

اب اِس دُعا کے ساتھ اِس تحریرکو ختم کرتا ہوں کہ خداوند آپ اور آپ کے گھرانے کے ہر سفر کو مبارک کرے اور ہر قدم پر ہمیشہ آپ کےساتھ رہے۔

اُس کی الہٰی محافظت کے سب وعدے ہی اِس غیر یقینی زندگی میں ہمارا واحد سہارا اور آسرا ہیں۔

ساری عزت اور جلال خُدا کے بیٹے ہمارے خداوند یسوعؔ مسیح کو ملے ۔ آمین!