مصنف: اسٹیفن رضاؔ
(ایم اے انگریزی ادب، بی ٹی ایچ)
✪✪✪
Download E-Book (PDF)
✪✪✪

سنہلی آیت

’’ اور مَیں اُن کو اور اُن جگہوں کو جو میرے پہاڑ کے آس پاس ہیں برکت کا باعث بناؤں گا اور مَیں بروقت مینہ برساؤں گا۔ برکت کی بارش ہوگی۔ اور میدان کے درخت اپنا میوہ دیں گے اور زمین اپنا حاصل دے گی اور وہ سلامتی کے ساتھ اپنے ملک میں بسیں گے اور جب مَیں اُن کے جوئے کا بندھن توڑوں گا اور اُن کے ہاتھ سے جو اُن سے خدمت کرواتے ہیں چھڑاؤں گا تو وہ جانیں گے کہ مَیں خداوند ہوں۔ ‘‘ (حزقی ایل ۳۴: ۲۶)

ابتدائیہ

؎ جدوں ہندی اے پہل چھلے دی بارش
اوہنوں برکتاں نال لیندی چھپا ہے
...
عزیز قاری،
مسیح یسوعؔ کے جلالی، بابرکت اور قدوس نام میں آپ کی سلامتی ہو!
بائبل مقدس میں ، بارش ایک موسمی واقعے یا کیفیت سے کہیں بڑھ کر معنی رکھتی ہے۔ بائبل مقدس میں بارش سے جُڑے کئی واقعات بہت مشہور ہیں جیسے نوح ؔکا طوفان چالیس دِن رات مسلسل بارش ہونے کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا اور ایلیاہؔ نے اپنے آپ کو خُدا کا سچا نبی ثابت کرنے کے لئے بعل کے پجاریوں کے دیکھتے دیکھتے دُعا کے ذریعے ساڑھے تین سال کے لئے آسمان سے بارش کو روک دیا تھا جسے بائبل مقدس میں آسمان کو بند کر دینا کہا گیا ہے۔ اِن واقعات کی تفصیل ہم آگے چل کر دیکھیں گے۔
بائبل مقدس کی رُو سے، بارش کو نبوتی واقعات کے علاوہ خُدا کی رحمت اور قہر نیز کلیسیائی بیداری کی علامات اور تشبیہات کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں میں، پیدائش کی کتاب میں سے بارش کے ابتدائی ذکر کا حوالہ دے کر اپنی گفتگو کا باقاعدہ آغاز کروں گا،
...
ابتدا میں بارش کی بجائے زمین پر سے کُہر اُٹھتی تھی
’’اور زمین پر اب تک کھیت کا کوئی پودا نہ تھا اور نہ میدان کی کوئی سبزی اب تک اُگی تھی کیونکہ خداوند خدا نے زمین پر پانی نہیں برسایا تھا اور نہ زمین جوتنے کو کوئی انسان تھا۔ بلکہ زمین سے کُہر اُٹھتی تھی اور تمام رویِ زمین کو سیراب کرتی تھی۔‘‘ (پیدائش ۲: ۵۔ ۶)
اب، آئیے اپنے مطالعے کو باقاعدہ طور پر شروع کرتے ہیں۔
✪✪✪
باب اول

بارش کی اہمیت اور ضرورت

عام مقولہ ہے کہ پانی حیات یعنی زندگی ہے۔ یہ تمام جانداروں کے زندہ رہنے کے لئے بہت ضروری ہے جن میں نباتات، حیوانات اور انسان سب شامل ہیں۔ پانی زندگی کی علامت ہے ۔ الغرض، پانی ہر جاندار کی ضرورت ہے جن میں چرند، پرند، جانور، چوپائےحتیٰ کہ زمین بھی شامل ہے۔ بعض جانور اور پودے تو رہتے ہی پانی میں رہتے ہیں جنہیں آبی جانور یا آبی حیات کہا جاتا ہے۔
پانی کے بہت سے ذرائع ہیں جن میں سمندر، دریا، نہریں، ندی نالے، تالاب، جوہڑ اور زیرِ زمین پانی شامل ہیں۔ بارش دراصل ایک آبی چکر کے نتیجے میں زمین ہی کے پانی کا پلٹاؤ ہے۔ بائبل مقدس میں آبی چکر کو کیسے بیان کیا گیا ہے اِس کے بارے میں ہم آگے چل کر تفصیل سے بات کریں۔ بائبل مقدس کے زمانہ میں بارش کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی کیونکہ آدم کے زمانہ سے لے کر آج تک زراعت یعنی کھیتی باڑی ہی انسان کا بنیادی ذریعۂ خوراک رہی ہے جس کی آبپاشی کے لئے آج بھی سب سے بڑا ماخذ بارش ہے۔ قدیم زمانوں میں جب باضابطہ نہری یا برقی نظام نہیں ہوا کرتے تھے تو لوگ اپنی فصلوں کو پانی دینے کے لئے بارش پر انحصار کیا کرتے تھے۔ بارش ہوتی تھی تو فصلیں لہلہانے، چرند پرند چہچہانے اور زندگیاں مسکرانے لگتی تھیں۔ بارش نہیں ہوتی تھی تو تمام مخلوقات جاں بلب ہو جایا کرتی تھیں۔

خشک سالی:
بارش کا اُلٹ خشک سالی ہے جس میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے زمین بنجر اور کٹاؤ کا شکار ہونا شرو ع ہو جاتی ہے، چراگاہیں سوکھنے لگتی ہیں اور پھر جب خشک سالی حد سے بڑھ جاتی تھی، یعنی جب ایک طویل عرصے تک زمین پر بارش نہیں برستی تھی تو لوگ خصوصی طور پر خُدا کے طالب ہو کر اُس کے حضور گریہ و زاری اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے کیونکہ بارش کا بروقت نہ ہونا خُدا کی ناراضگی کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔
فصلوں کی آبیاری کے لئے بارشوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔ فصلوں کی کاشت ہی بارش کے مطابق کی جاتی تھی۔ جس زمانے کی یہ آیات ہیں اس زمانے میں بارش سال میں دو بار ہوتی تھی جس میں سے ایک کو پہلی جبکہ دوسری کو پچھلی برسات کہا جاتا تھا۔ ایک بیج بونے کے بعد ہوتی تھی اور دوسری فصل کی کٹائی سے کچھ عرصہ پہلے۔ پہلی بارش کے ایام میں بیج بویا جاتا تھا اور پھر بارش ہوتی تو زمین نرم ہو جاتی اور بیج نمو پا کر اگنا شروع کر دیتا ۔ دوسری بار فصل کی کٹائی سے کچھ عرصہ پہلے بارش ہوتی جس کے نتیجے میں فصل پک کر تیار ہو جاتی۔ اسی مناسبت سے آج بھی مشرقی نظام میں کاشتکاری کے دو اوقات مقرر ہیں: فصل ربیع اور فصلِ خریف۔
اگر بارشیں وقت پر نہ ہوتیں تو کسانوں کی حالت غیر ہو جاتی۔ وہ دعائیں مانگنے لگتے۔ چڑھاوے چڑھاتے۔ نذریں گذرانتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید خدا ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے غیر قوموں نے اپنے اپنے دیوتا مقرر کر رکھے تھے جنہیں بارش کے دیوتا کہا جاتا تھا۔کنعانیوں کے مذہب میں بعل دیوتا کو بارش کا دیوتا مانا جاتا تھا۔
خُدا کا شکر ہے کہ بائبل مقدس کے ماننے والوں کو اپنی ہر ضرورت کے لئے مختلف دیوتا یا معبود کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہوواہ خُدا ہماری سب ضرورتوں کو مہیا کرنے والا واحد خُدا ہے۔ ہالیلویاہ!

✪✪✪
باب دوم

بارش اور خُدا

بارش کا بنانے اور برسانے والا خُدا ہے ۔
  1. ’’وہی زمین پر مینہ برساتا اور کھیتوں میں پانی بھیجتا ہے ۔‘‘ — ایوب ۵: ۱۰
  2. ’’جب اُس نے بارش کے لئے قانون اور رعد کی برق کے لئے راستہ ٹھہرایا۔‘‘ — ایوب ۲۸: ۲۶
  3. ’’ کیونکہ وہ برف کو فرماتا ہے کہ تو زمین پر گر ۔ اِسی طرح وہ بارش سے اور موسلادھار مینہ سے کہتا ہے ۔‘‘ — ایوب ۳۷: ۶
  4. ’’ اَے خُدا! جب تُو اپنے لوگوں کے آگے آگے چلا۔ جب تو بیابان میں سے گُذرا تو زمین کانپ اُٹھی۔ خُدا کے حضور آسمان گِر پڑے۔ بلکہ کوہ سیناؔ بھی خُدا کے حضور۔ اِسرائؔیل کے خُدا کے حضور کانپ اُٹھا۔ اَے خُدا تُو نے خُوب مینہ برسایا۔ تُو نے خُشک میراث کو تازگی بخشی۔‘‘ — زبور ۶۸: ۷۔۹
  5. ’’جو آسمان کو بادلوں سے مُلبس کرتا ہے۔ جو زمین کے لئے مینہ تیار کرتا ہے۔ جو پہاڑوں پر گھاس اُگھاتا ہے۔‘‘ — زبور ۱۴۷: ۸
  6. ’’ کِیُونکہ وہ اپنے سُورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔‘‘ — متی ۵: ۴۵
  7. ’’ اِنہوں نے اپنے دِل میں نہ کہا کہ ہم خداوند اپنے خدا سے ڈریں جو پہلی اور پچھلی برسات وقت پر بھیجتا ہے اور فصل مُقررہ ہفتوں کو ہمارے لئے مُوجودہ کر رکھتا ہے۔‘‘ — یرمیاہ ۵: ۲۴
  8. ’’ قوموں کے بُتوں میں کوئی ہے جو مینہ برسا سکے یا افلاک بارش پر قادر ہیں ؟ اَے خداوند ہمارے خدا کیا وہ تو ہی نہیں ہے؟ پس ہم تجھ ہی اُمید رکھینگے کیونکہ تو ہی نے یہ سب کام کئے ہیں۔‘‘ — یرمیاہ ۱۴: ۲۲
  9. ’’ خُداوند قہر کرنے میں دھیما اور قُدرت میں بڑھ کر ہے اور مُجرم کو ہرگز بری نہ کرے گا۔ خُداوند کی راہ گر دیاد اور آندھی میں ہے۔ اور بادل اس کے پاؤں کی گرد ہیں۔‘‘ — ناحوم ۱: ۳
  10. ’’پچھلی برسات کی بارش کے لے خُداوند سے دُعا کرو۔ خُداوند سے جو بجلی چمکاتا ہے۔ وہ بارش بھیجے گا اور میدان میں سب کے لے گھاس اگائے گا۔‘‘ — زکریاہ ۱۰: ۱
✪✪✪
باب سوم

بارش کا نظام (آبی چکر) ازروئے بائبل

  1. ’’اور زمین پر اب تک کھیت کا کوئی پودا نہ تھا اور نہ میدان کی کوئی سبزی اب تک اُگی تھی کیونکہ خداوند خدا نے زمین پر پانی نہیں برسایا تھا اور نہ زمین جوتنے کو کوئی انسان تھا۔ بلکہ زمین سے کُہر اُٹھتی تھی اور تمام رویِ زمین کو سیراب کرتی تھی۔‘‘ — پیدائش ۲: ۵۔۶
  2. ’’دیکھ ! خدابُزرُگ ہے اور ہم اُسے نہیں جانتے ۔ اُسکے برسوں کا شمار دریافت سے باہر ہے ۔ کیونکہ وہ پانی کے قطروں کو اُوپر کھینچتا ہے جو اُسی کے بخرات سے مینہ کی صورت میں ٹپکتے ہیں۔‘‘ — ایوب ۳۶: ۲۷۔۲۸
  3. ’’بدلیوں نے پانی برسایا افلاک سے آواز آئی تیرے تیر بھی چاروں طرف چلے ۔‘‘ — زبور ۷۷: ۱۷
  4. ’’جب بادل پانی سے بھرے ہوتے ہیں تو زمین پر برس کر خالی ہوجاتے ہیں ۔‘‘ — واعظ ۱۱: ۳
روحانی آبی چکر
خدا کی برکات کو بارش سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کیونکہ جس طرح بارش آسمان سے برستی ہے اسی طرح برکات بھی آسمان سے برستی ہیں۔ جس طرح بارش سے پہلے بخارات نیچے سے اوپر کی طرف اٹھتے ہیں اور پھر وہی بخارات بارش برساتے ہیں اسی طرح شکرگزاریاں ، پرستش اور دعائیں نیچے سے اوپر جاتی ہیں تو پھر آسمانی برکات کی بارش ہوتی ہے۔
✪✪✪
باب چہارم

بارش اور ایلیاہؔ نبی

ایلیاہ نے ایزبل اور اخی اب بادشاہ کے علاوہ پوری قوم کےسامنے اپنے آپ کو خُدا کا سچا نبی ثابت کرنے کے لئے ساڑھے تین سال کے لئے آسمان کو بند کر دیا یعنی بارش روک دی تھی۔

  1. ’’اور ایلیاہ تشبی جو جلعاد کے پردیسیوں میں سے تھا اخی اب سے کہا کہ خُداوند اسرائیل کے خُدا کی حیات کی قسم جس کے سامنے میں کھڑا ہوں اِن برسوں میں نہ اوس پڑے گی نہ مینہ برسیگا جب تک میں نہ کہوں۔‘‘ — ۱۔ سلاطین ۱۷: ۱
    پھر ساڑھے تین سال بعد اُس کی دُعا سے دوبارہ بارش ہوئی۔
  2. ’’پھر ایلیاہ نے اخی اب سے کہا اوپر چڑھ جا ۔ کھا اور پی کیونکہ کثرت کی بارش کی آواز ہے ۔ سو اخی اب کھانے پینے کو اوپر چلا گیا اور ایلیاہ کرمل کی چوٹی پر چڑھ گیا اور زمین پر سرنگون ہو کر اپنا منہ اپنے گھٹنوں کے بیچ کر لیا ۔ اور اپنے خادم سے کہا ذرا اوپر جا کر سمندر کی طرف تو نظر کر ۔ سو اُس نے اوپر جا کر نظر کی اور کہاں وہاں کچھ بھی نہیں ہے ۔ اُس نے کہا پھر سات بار جا ۔ اور ساتویں مرتبہ اُس نے کہا دیکھ ایک چھوٹا سا بادل آدمی کے ہاتھ کے برابر سمندر میں سے اُٹھا ہے ۔ تب اُس نے کہا جا اور اخی اب سے کہہ کہ اپنا رتھ تیار کرا کے نیچے اُتر جا تاکہ بارش تُجھے روک نہ لے۔ اور تھوڑی ہی دیر میں آسمان گھٹا اور آندھی سے سیاہ ہو گیا اور بڑی بارش ہوئی اور اخی اب سوار ہو کر یزرعیل کو چلا ۔ اور خُداوند کا ہاتھ ایلیاہ پر تھا اور اُس نے اپنی کمر کس لی اور اخی اب کے آگے آگے یزرعیل کے مدخل تک دوڑا چلا گیا ۔‘‘ — ۱۔ سلاطین ۱۸: ۴۱–۴۵
  3. یعقوب کے خط میں لکھا ہے کہ ایلیاہ ہمارا ہم طبیعت انسان تھا:
  4. ’’ایلِیاہ ہمارا ہم طبِیعت اِنسان تھا۔ اُس نے بڑے جوش سے دُعا کی مینہ نہ برسے۔ چُنانچہ ساڑھے تِین برس تک زمِین پر مینہ نہ برسا۔ پھِر اُس نے دُعا کی تو آسمان سے پانی برسا اور زمِین میں پَیداوار ہُوئی۔‘‘ — یعقوب ۵: ۱۷–۱۸
✪✪✪
باب پنجم

بارش کی علامات ازروئے بائبل

1. بارش خُدا کے فضلِ عام کی علامت ہے
متی ۵:۴۵ — ’’کِیُونکہ وہ اپنے سُورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔‘‘
2. بارش خُدا کی رحمت کی علامت ہے
استثنا ۲۸:۱۲ — ’’خداوند آسمان کو جو اُس کا اچھا خزانہ ہے تیرے لئے کھول دے گا تاکہ تیرے ملک میں وقت پر مینہ برسائے۔‘‘
احبار ۲۶:۳۔۴ — ’’اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو۔ تو میں تمہارے لئے بروقت مینہ برساؤنگا اور زمین سے اناج پیدا ہوگا اور میدان کے درخت پھلینگے۔‘‘
اعمال ۱۴:۱۷ — ’’تو بھی اُس نے اپنے آپ کو بے گواہ نہ چھوڑا۔ چنانچہ اُس نے مہربانیاں کیں اور آسمان سے تمہارے لئے پانی برسایا اور بڑی بڑی پیداوار کے موسم عطا کئے اور تمہارے دِلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دیا۔‘‘
3. بارش خُدا کی قدرت کی علامت ہے
یرمیاہ ۱۴:۲۲ — ’’قوموں کے بُتوں میں کوئی ہے جو مینہ برسا سکے یا افلاک بارش پر قادر ہیں؟ اَے خداوند ہمارے خدا کیا وہ تو ہی نہیں ہے؟ پس ہم تجھ ہی اُمید رکھینگے کیونکہ تو ہی نے یہ سب کام کئے ہیں۔‘‘
4. بارش کا بروقت برسنا خُدا کی برکت کی علامت ہے
استثنا ۱۱:۱۳۔۱۴ — ’’او ر اگر تُم میرے حکموں کو جو آج میں تُم کو دیتا ہوں اور اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان سے اُسکی بندگی کرو۔ تو میں تمہارے ملک میں عین وقت پر پہلا اور پچھلا مینہ برساونگا تاکہ تُو اپنا غلہ اور مَے اور تیل جمع کر سکے۔‘‘
5. بارش کا نہ ہونا، بروقت نہ برسنا، یا حد سے زیادہ برسنا باعثِ زحمت، خُدا کے غضب اور عدالت کی علامت ہے
پیدائش ۷:۴ — ’’کیونکہ سات دِن کے بعد مَیں زمین پر چالیس دِن اور چالیس رات پانی برساؤں گا اور ہر جاندار شے کو جِسے مَیں نے بنایا زمین پر سے مِٹا ڈالُونگا۔‘‘
استثنا ۱۱:۱۷ — ’’اور خداوند کا غضب تُم پر بھڑکے اور وہ آسمان کو بند کر دے تاکہ مینہ نہ برسے اور زمین میں کچھ پیداوار نہ ہو اور تُم اِس اچھے ملک سے جو خداوند تُم کو دیتا ہے جلد فنا ہو جاؤ۔‘‘
استثنا ۲۸:۲۴ — ’’خداوند مینہ کے بدلے تیری زمین پر خاک اور دھول برسائے گا۔ یہ آسمان سے تجھ پر پرتی ہی رہے گی جب تک کہ تُو ہلاک نہ ہو جائے۔‘‘
۱۔ سلاطین ۱۷:۱ — ’’اور ایلیاہ تشبی جو جلعاد کے پردیسیوں میں سے تھا اخی اب سے کہا کہ خُداوند اسرائیل کے خُدا کی حیات کی قسم جسکے سامنے میں کھڑا ہوں اِن برسوں میں نہ اوس پڑے گی نہ مینہ برسیگا جب تک میں نہ کہوں۔‘‘
یسعیاہ ۵:۵۔۶ — ’’میں تم کو بتاتا ہوں کہ اب میں اپنے تاکستان سے کیا کرونگا میں اُسکی باڑ گرادونگا اور وہ چراگاہ ہو گا۔ اُس کا احاطہ توڑڈالونگا اور وہ پامال کیا جائیگا۔ اور میں اُسے بالکل ویران کردونگا۔ وہ نہ چھانٹا جائیگا نہ نرایا جائیگا۔ اُس میں اونٹ کٹارے اور کانٹ اگیں گے اور میں بادلوں کو حکم کرونگا کہ اس پر مینہ نہ برسائیں۔‘‘
یرمیاہ ۳:۱۔۳ — ’’اِس لئےِ بارش نہیں ہوتی اور آخری برسات نہیں ہوئی۔‘‘
عاموس ۴:۷ — ’’اور اگرچہ میں نے مینہ کو جب کہ فصل پکنے میں تین مہینے باقی تھے تم سے روک لیا اور ایک شہر پر برسایا اور دُوسرے سے روک رکھا۔ ایک قطعہ زمین پر برسا اور دُوسرا قطعہ بارش نہ ہونے کے باعث سوکھ گیا۔‘‘
6. بارش خُدا کے کلام کے نزول کی علامت ہے
یسعیاہ ۵۵:۱۰۔۱۱ — ’’کیونکہ جس طرح آسمان سے بارش ہوتی اور برف پڑتی ہے اور پھر وہ وہاں واپس نہیں جاتی بلکہ زمین کو سیراب کرتی ہے۔ اور اُس کی شادابی اور روئیدگی کا باعث ہوتی ہے تاکہ بونے والے بیج اور کھانے والے کو روٹی دے۔ اسی طرح میرا کلام جو میرے منہ سے نکلتا ہے ہو گا۔ وہ انجام میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہو گی وہ اسے پورا کرے گا اور اس کام میں جس کے لئے میں نے اسے بھیجا موثر ہو گا۔‘‘
7. بارش خُدا کے روح القدس کے نزول اور کلیسیائی بیداری کی علامت ہے
ہوسیع ۶:۲۔۳ — ’’آو ہم دریافت کریں اور خُداوند کے عرفان میں ترقی کریں ۔ اُس کا ظُہور صُبح کی مانند یقننی ہے اور وہ ہمارے پاس برسات کی مانند یعنی آخری برسات کی مانند جو زمین کو سیراب کرتی ہے آئے گا۔‘‘
یوایل ۲:۲۳۔۲۹ — ’’پس اے بنی صیُّون خُوش ہواور خُداوند اپنے خُدا میں شادمانی کرو کیونکہ وہ تم کو پہلی برسات اعتدال سے بخشے گا۔ وہی تمہارے لئے بارش یعنی پہلی اور پچھلی برسات بروقت بھیجے گا۔۔۔ اور اس کے بعد میں ہر فرد بشر پر اپنی رُوح نازل کُروںگا۔۔۔‘‘
یوایل کی اِس نبوت کی تکمیل اعمال ۲: ۱۶۔ ۱۸ میں کچھ اِس طرح ہوئی:
اعمال ۲:۱۶۔۱۸ — ’’بلکہ یہ وہ بات ہے جو یوئیل نبی کی معرفت کہی گئی ہے کہ ۔ خُدا فرماتا ہے کہ آخِری دِنوں میں اَیسا ہوگا کہ مَیں اپنے رُوح میں سے ہر بشر پر ڈالُوں گا۔۔۔ بلکہ مَیں اپنے بندوں اور اپنی بندِیوں پر بھی اُن دِنوں میں اپنے رُوح میں سے ڈالُوں گا اور وہ نبُوّت کریں گی۔‘‘
✪✪✪
باب ششم

ہمیں پچھلی برسات کی ضرورت ہے

ہمیں داؤودؔ کی طرح اقرار کرنے اور یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ ہم کلیسیائی طور پر اِس وقت روحانی خشک سالی اور بنجر پن کا شکار ہیں۔
زبور ۶۳: ۱ — ’’اَے خُدا ! تُو میرا خُدا ہے۔ میَں دِل سے تیرا طالِب ہونگا۔ خُشک اور پیاسی زمین میں جہاں پانی نہیں میری جان تیری پیاسی اور میرا جِسم تیرا مُشتاق ہے۔‘‘
پھر کلیسیا کی اِس حالت کا بیان یرمیاہ کی کتاب میں ہمیں کچھ یوں ملتا ہے:
یرمیاہ ۱۴: ۳، ۴، ۲۲ — ’’یہوداہؔ ماتم کرتا ہے اور اُسکے پھاٹکوں پر اُداسی چھائی ہے۔ وہ ماتمی لباس میں خاک پر بیٹھے ہیں اور یروشلیم کا نالہ بلند ہُوا ہے۔ اُنکے امرا اپنے ادنیٰ لوگوں کو پانی کے لئے بھیجتے ہیں۔ وہ چشموں تک جاتے ہیں پر پانی نہیں پاتے اور خالی گھڑے لئے لوٹ آتے ہیں۔ وہ شرمندہ و پشیمان ہو کر اپنے سر ڈھاپنتے ہیں۔ چونکہ ملک میں بارش نہ ہُوئی اِسلئےِ زمین پھٹ گئی اور کسان سراسیمہ ہُوئے۔ وہ اپنے سر ڈھاپنتے ہیں۔ چنانچہ ہرنی میدان میں بچہ دیکر اُسے چھوڑ دیتی ہے کیونکہ گھاس نہیں ملتی۔ اور گورخر اُونچی جگہوں پر کھڑے ہو کر گیدڑوں کی مانند ہاپنتے ہیں۔ اُنکی آنکھیں رو جاتی ہیں کیونکہ گھاس نہیں ہے۔ اگرچہ ہماری بد کرداری ہم پر گواہی دیتی ہے تو بھی اے خداوند ! اپنے نام کی خاطر کچھ کر کیونکہ ہماری برگشتگی بہت ہے۔ ہم تیرے خطا کار ہیں۔‘‘
داؤدؔ کے بیٹے سلیمانؔ نے خُدا سے یوں التجا کی تھی:
۲۔ تواریخ ۶:۲۶ — ’’اور جب اس سبب سے کہ انہوں نے تیرا گناہ کیا ہو آسمان بند ہو جائے اور بارش نہ ہو اور وہ اِس مقام کی طرف رُخ کرکے دُعاکریں اور تیرے نام کا اقرار کریں اور اپنے گناہ سے باز آئیں جب تُو ان کو دُکھ دے۔ تو تُو آسمان پر سے سُنکر اپنے بندوں اور اپنی قوم اسرائیل کا گناہ معاف کر دینا کیونکہ تُونے اُنکو اُس اچھی راہ کی تعلیم دی جس پر اُنکو چلنا فرض ہے اور اپنے مُلک پر جسے تُو نے اپنی قوم کو میراث کے لیئے دیا ہے مینہ برسانا۔‘‘
اور خُدا نے یہ جواب دیا تھا:
۲۔ تواریخ ۷:۱۳–۱۴ — ’’اگر میں آسمان کو بند کردوں کہ بارش نہ ہو یا ٹڈیوں کو حُکم دوں کہ مُلک کو اُجاڑ ڈالیں یا اپنے لوگوں کے درمیان وبا بھیجوں۔ تب اگر میرے لوگ جو میرے نام سے کہلاتے ہیں خاکسار بن کر دُعا کریں اور میرے دیدار کے طالب ہوں اور اپنی بُری راہوں سے پھریں تو میں آسمان پر سے سُن کر اُن کا گناہ معاف کروں گا اور اُن کے مُلک کو بحال کروں گا۔‘‘

باب ہفتم بارش کے بارے میں متفرق آیات ۔۔۔ • عبرانیوں ۶: ۷۔کِیُونکہ جو زمِین اُس بارِش کا پانی پی لیتی ہے جو اُس پر بار بار ہوتی ہے اور اُن کے لِئے کارآمد سبزی پَیدا کرتی ہے جِن کی طرف سے اُس کی کاشت بھی ہوتی ہے وہ خُدا کی طرف سے بَرکَت پاتی ہے۔ • زبور ۸۴: ۶۔ ’’ وہ وادیِ بُکا سے گُذر کر اُس چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں۔ بلکہ پہلی بارِش اُسے برکتوں سے معمور کر دیتی ہے۔‘‘ • یعقوب ۵: ۷۔ ۸۔ ’’پس اے بھائیو! خداوند کی آمد تک صبر کرو۔ دیکھو۔ کسان زمین کی قیمتی پیداوار کے انتظار میں پہلے اور پچھلے مینہ کے برسنے تک صبر کرتا رہتا ہے۔ تُم بھی صبر کرو اور اپنے دِلوں کو مضبو ط رکھو کیونکہ خُداوند کی آمد قریب ہے۔‘‘ • ہوسیع ۱۰: ۱۲۔ 12 اپنے لئے صداقت سے تخم ریزی کرو۔شفقت سے فصل کاٹو اور اپنی اُفتادہ زمین میں ہل چلاو کیونکہ اب موقع ہے کہ تم خُداوند کے طالب ہو تاکہ وہ آے اور راستی کو تم پر برسائے۔ اپنی دہ یکی خدا کے حضور میں لانے سے برکتوں کی بارش ہوتی ہے۔ • ملاکی ۳: ۱۰۔ ’’ پوری دہ یکی ذخیرہ خانہ میں لاو تا کہ میرے گھر میں خوراک ہو اور اسی سے میرا امتحان کرو رب الافواج فرماتا ہے کہ میں تم پر آسمان کے دریچوں کو کھول کر برکت برساتا ہوں کہ نہیں یہاں تک کہ تمہارے پاس اس کے لے جگہ نہ رہے۔‘‘
✪✪✪
باب ہشتم

بادل اور آمدِ ثانی ، قوسِ قزح اور خُدا کا عہد

بارش سے پہلے آسمان پر بادل دکھائی دیتے ہیں اور بارش کے بعد قوسِ قزح۔ آئیے بائبل مقدس کی رُو سے اِن دونوں کی اہمیت کو بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں:

بادل:

کسی خادم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب کبھی آسمان پر بادل جمع ہوتے ہوئے دیکھتا تو فوراً تیار ہو کر بیٹھ جاتا تھا کہ ہو سکتا ہے یسوعؔ اِنہی بادلوں پر ہمیں لینے کے لئے آ جائے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ بارش سے پہلے آسمان پر بادل دکھائی دیتے ہیں جو ہمیں اِس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ ہمارا خداوند یسوعؔ مسیح بادلوں پر اُٹھایا گیا تھا اور بادلوں پر ہی سوار ہو کر دوبارہ آئے گا۔ اُس کی دوبارہ آمد کو ہم آمدِ ثانی کا نام دیتے ہیں جس کے ہم سب منتظر اور مشتاق ہیں۔ اِس اعتبار سے بارش ہمیں مسیح کی آمدِ ثانی کے لئے تیاری کا بھی پیغام دیتی ہے۔

متی ۲۴: ۳۰ — ’’اور اُس وقت ابنِ آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا۔ اور اُس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابنِ آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔‘‘
اعمال ۱: ۱۱ — ’’اے گلیلی مردو! تُم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوعؔ جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اِسی طرح پھر آئے گا جس طرح تُم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے۔‘‘
۱۔ تھسلنیکیوں ۴: ۱۷ — ’’پھر ہم جو زندہ باقی ہوں گے اُن کے ساتھ بادلوں پر اُٹھائے جائیں گے تاکہ ہوا میں خداوند کا استقبال کریں اور اِس طرح ہمیشہ اُس کے ساتھ رہیں۔‘‘
مکاشفہ ۱: ۷ — ’’دیکھو وہ بادلوں کے ساتھ آنے والا ہے۔‘‘
قوسِ قزح:

بارش کے بعد قوسِ قزح کی ست رنگی کمان یعنی دھنک کا نمودار ہونا بھی ایک الہٰی مظہر اور خُدا کے اُس دائمی عہد کی یادگاری ہے جو اُس نے پیدائش کی کتاب میں طوفان کے بعد اپنے بندہ نوحؔ سے باندھا تھا:

پیدائش ۹: ۱۲–۱۷ — ’’اور خُدا نے کہا کہ جو عہد مَیں اپنے اور تمہارے درمیان اور سب جانداروں کے درمیان جو تمہارے ساتھ ہیں پُشت در پُشت ہمیشہ کے لِئے کرتا ہوں اُس کا نِشان یہ ہے کہ مَیں اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہوں۔ وہ میرے اور زمین کے درمیان عہد کا نِشان ہوگی۔ اور اَیسا ہوگا کہ جب مَیں زمین پر بادل لاؤں گا تو میری کمان بادل میں دِکھائی دے گی۔ اور میں اپنے عہد کو جو میرے اور تمہارے اور ہر طرح کے جاندار کے درمیان ہے یاد کروں گا اور تمام جانداروں کی ہلاکت کے لِئے پانی کا طوفان پھر نہ ہوگا۔ اور کمان بادل میں ہوگی اور مَیں اُس پر نِگاہ کروں گا تاکہ اُس ابدی عہد کو یاد کروں جو خُدا کے اور زمین کے سب طرح کے جاندار کے درمیان ہے۔ پس خُدا نے نُوحؔ سے کہا کہ یہ اُس عہد کا نِشان ہے جو مَیں اپنے اور زمین کے کُل جانداروں کے درمیان قائم کرتا ہوں۔‘‘

اِسی کمان کا ذکر حزقی ایل کی کتاب میں بھی ملتا ہے:

حزقی ایل ۱: ۲۸ — ’’جیسی اُس کمان کی صورت ہے جو بارش کے دِن بادلوں میں دکھائی دیتی ہے ایسی ہی آس پاس کی اُس جگمگاہٹ کی نمود تھی۔ یہ خُداوند کے جلال کا اظہار تھا۔‘‘

مکاشفہ ۴: ۳ میں یوحنا عارف نے بھی رویا میں اِسی دھنک کو خُدا کے تخت کے گرد دیکھا تھا، جس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ قوسِ قزح درحقیقت ایک مکمل دائرہ ہے جس کا نصف حصہ خُدا کی طرف اور دوسرا نصف حصہ ہم انسانوں کی طرف دکھائی دیتا ہے، اور یوں یہ قوسِ قزح دونوں فریقین کو اُس ابدی عہد کی یاد دلاتی ہے:

مکاشفہ ۴: ۳ — ’’اور اُس تخت کے گرد زمرد کی سی ایک دھنک معلوم ہوتی ہے۔۔۔‘‘

✪✪✪
باب نہم

بارش کا ہماری پرستش میں ذکر

؎ جدوں ہندی اے پہل چھلے دی بارش
اوہنوں برکتاں نال لیندی چھپا ہے
۔۔۔
؎ روح کی بارش برسا چاہتی ہے، خداوند کی شفا آتی ہے
پریم کی برکھا برسا چاہتی ہے، خداوند کی شفا آتی ہے
۔۔۔
؎ سارے مل کے کرو دُعا ہن بارش روح دی ہووے
باپ بیٹے پاک روح دی حمد ہمیشہ ہو وے
۔۔۔
؎؎ روح کی بارش برسے گی
روح کی بارش برسے گی
۔۔۔
؎ وس بدلا پاک روح دیا بدلا، روح دی ایسی بارش کر دے
غیر زباناں دے نال بھر دے، دے دے روح دا مسح
۔۔۔
؎ روحِ پاک کے چھا رہے ہیں بادل اب
کثرت کی بارش کی صدا ہے سن لو سب
پھر سے یہوواہ مینہ برسانے والا ہے
۔۔۔
؎ خونِ یسوع کی بارش رہے، نامِ یسوع کی برکت رہے
روحِ یسوع سے بھرپور ہوں، اپنے یسوع کو تکتے رہیں
۔۔۔
؎ رِم جھم رِم جھم بارش برسا اپنے کلام کی
تعریف ہو خُدا تیرے نام کی
۔۔۔
؎ جب ستائش ہوتی ہے روح کی بارش ہوتی ہے
یسوع تیری حضوری میں روح کی جنبش ہوتی ہے
تیری قوت سے خالی ہم نہیں رہتے
۔۔۔
؎ چھونے سے تیرے بدلے زندگی، مٹا دے دِل کی ساری گندگی
بخش دے مجھ کو جیون ابدی، جب تُو چھوئے میرے جیون کو
ایسی کثرت کی بارش ہو
۔۔۔
؎ بارش ہو گی روحِ پاک کے بادل سے
دھل جائیں گے میلے من بھی اندر سے
۔۔۔
؎ نُور کی بارش برس رہی ہے، ویرانے شاداب ہوئے
جنگل ٹیلے پیاسے صحرا، آج سبھی سیراب ہوئے

✪✪✪

اختتامیہ

عزیز قاری،
تحریر پڑھنے کا بہت بہت شکریہ۔ میری دِلی دُعا ہے کہ یہ کتابچہ آپ کے لئے باعثِ برکت ثابت ہو۔
ساری عزت اور جلال خُدا کے بیٹے ہمارے خداوند یسوعؔ مسیح کو ملے ۔ آمین!

مسیح میں آپ کا ہمخدمت
اسٹیفن رضاؔ